26 ویں ترمیم کا مقدمہ: جسٹس مظہر کا کہنا ہے کہ باقاعدہ اور آئینی بینچز ‘ایک ہی درخت کی شاخیں’ ہیں
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں جاری 26 ویں ترمیم کے مقدمے پر سماعت کی روایتی اور آئینی بینچز کی اہمیت پر بحث جاری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اس معاملے پر دلچسپ رائے پیش کی کہ یہ دونوں ‘ایک ہی درخت کی شاخیں’ ہیں۔ یہ مضمون اس مقدمے کی اہمیت اور اس میں اٹھائے جانے والے نکات کا جائزہ لیتا ہے۔
عدالتی سماعت
تازہ ترین سماعت کے دوران جسٹس مظہر نے کہا کہ باقاعدہ اور آئینی بینچز دونوں اعلیٰ عدلیہ کا حصہ ہیں۔ یہ بات ایک قابل غور پہلو ہے کیونکہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ 26 ویں ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
ترمیم کا پس منظر
یہ ترمیم گزشتہ سال اکتوبر میں پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں منظور کی گئی تھی۔ اس کے پس پردہ پی ٹی آئی کے سات ارکان کی مبینہ گمشدگی کا الزام ہے، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو سینیٹرز پر بھی دباؤ ڈالے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ ترمیم عدلیہ کی خود مختاری کے لئے چیلنج کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
آئینی بینچ کے مباحثے
سماعت میں جسٹس ہلیلی نے وضاحت کی کہ 26 ویں ترمیم کے نتیجے میں آئینی بینچز کی تشکیل کی گئی ہے۔ جبکہ جسٹس مظہر نے اس جانب اشارہ کیا کہ آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات دراصل سپریم کورٹ کے اختیارات کا حصہ ہیں۔ یہ بحث آئینی تبدیلیوں کی نوعیت اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
درخواست گزاروں کی پوزیشن
درخواست گزاروں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دیا جائے کہ یہ پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ انہوں نے استدعا کی ہے کہ عدالت اس کے کچھ نکات کو بھی غیر آئینی قرار دے۔ اس ترمیم کے ذریعے ججز کی کارکردگی کے سالانہ جائزے سمیت دیگر اہم امور میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
آنے والے مراحل
یہ مقدمہ اب بھی جاری ہے، اور عدالت کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا یہ معاملات آئینی بینچ ہی سنیں گے یا تمام ججز کی ایک مکمل عدالت کو اس کی سماعت سونپی جائے گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف 26 ویں ترمیم کے مستقبل کے لئے بلکہ ملک کی عدلیہ کی خود مختاری کے لئے بھی انتہائی اہم ہوگا۔
اس مقدمے کی سماعت کی جانچ پڑتال کے اثرات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی عدلیہ کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے سامنے آ سکتے ہیں۔ درخواست گزاروں اور وکلاء کی جانب سے مزید دلائل اور بحث جاری رہے گی، جس سے آئندہ آنے والے دنوں میں مزید پیشرفت متوقع ہے۔
