کراچی میں لیڈی ایم ایل او کی کمی، خواتین کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر بڑی وجہ قرار
کراچی میں خواتین کی 47 فیصد (ایک کروڑ سے زائد) کی آبادی پر صرف 20 لیڈی ایم ایل او تعینات ہیں۔ ان کا کام مختلف حادثات اور واقعات میں زخمی ہوکر اسپتال آنے والی خواتین کے زخموں کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ بہت اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اسی کی بنیاد پر عدالتوں میں کیس چلائے جاتے ہیں۔
لیڈی ایم ایل او کی اہمیت
لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ ریپ کیسز کا تعین کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ متاثرہ خواتین کے نمونے، جو کراچی یونیورسٹی میں قائم سندھ فارنزک ڈی این اے لیبارٹری میں بھیجے جاتے ہیں، انہی رپورٹس کی بنیاد پر ملوث افراد کو سزا دی جاتی ہے۔
کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد
کراچی کے مختلف اضلاع میں یومیہ درجنوں ڈومیسٹک وائلینس اور ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اسپتالوں میں لیڈی ایم ایل او کی کمی کی وجہ سے متاثرہ خواتین کو بروقت قانونی امداد نہیں ملتی، اور نتیجتاً ملزمان صلح کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
میڈیکو لیگل کے شعبے کی ضرورت
اگر کراچی کے تمام سرکاری اسپتالوں میں میڈیکو لیگل سیکشن فعال کیے جائیں اور وہاں لیڈی ایم ایل او کی تعیناتی کی جائے، تو متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔
ہسپتالوں کی صورتحال
کراچی میں صرف تین سرکاری اسپتالوں، جناح، سول اور عباسی اسپتال میں میڈیکو لیگل سیکشن فعال ہیں۔ دیگر اسپتالوں میں یہ سیکشن کاغذوں پر موجود ہیں مگر عملی طور پر چل نہیں رہے۔
متاثرہ خواتین کے تجربات
ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ انہوں نے عباسی اسپتال میں جانے کی کوشش کی مگر وہاں لیڈی ایم ایل او کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کی ایم ایل رپورٹ بروقت درج نہیں کی جا سکی۔
حکومتی اقدامات
پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمعیہ طارق نے بتایا کہ تمام کارروائیوں کو ڈیجیٹلائز کرنے پر کام شروع ہو چکا ہے، جس سے رپورٹنگ کی تاخیر ختم ہوگی اور متاثرہ خواتین کو فوری انصاف مل سکے گا۔
اختتام
خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے منظم اور موثر میڈیکو لیگل خدمات کا قیام بہت ضروری ہے تاکہ وہ بروقت انصاف حاصل کر سکیں۔ حکومت کو اس چند قدم کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ متاثرہ خواتین کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
