پنجاب اسمبلی کا اجلاس: ٹی ایل پی کے معاملے پر پی ٹی آئی ارکان کا احتجاج، واک آؤٹ
پنجاب اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے معاملے پر بات نہ کرنے پر پی ٹی آئی کے ارکان نے ہنگامہ کیا، جس کے باعث وہ فوری طور پر واک آؤٹ کر گئے۔ اپوزیشن میں شامل پیپلز پارٹی نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے ریمارکس کے خلاف واک آؤٹ کیا۔
اجلاس کی نمایاں تفصیلات
پنجاب اسمبلی کا اجلاس 42 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر ظہیر اقبال چنہڑ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول اللہؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ اس موقع پر پاک افغان جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں اور دیگر معزز شخصیات کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
سیاسی تناؤ اور احتجاج
اپوزیشن لیڈر معین ریاض قریشی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "آج پنجاب کی صورتحال بہت خراب ہے، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں”۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دے۔
وزیر پارلیمانی امور مجتبی شجاع الرحمان نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "تحریک لبیک سے افہام و تفہیم سے بات کرنا چاہتا ہوں، لیکن ہم اس طرح کے ہتھکنڈوں کو برداشت نہیں کریں گے”۔
پیپلز پارٹی کا موقف
پیپلز پارٹی کے رہنما ممتاز علی چانگ نے کہا کہ "ہم حکومت کا حصہ ہیں لیکن ہمارے تحفظات ہیں”۔ انہوں نے کہاکہ "جب تک ہمارے تحفظات دور نہیں کیے جاتے، ہم ایوان کا حصہ نہیں بنیں گے”۔
اپوزیشن کا مزید احتجاج
اجلاس کے دوران اپوزیشن نے ایجنڈا معطل کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ارکان نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیں۔ وزیر پارلیمانی امور نے اپوزیشن پر طنز کیا کہ "ان کا لیڈر خاتم النبین نہیں بول سکتا”۔
اجلاس میں بل کی منظوری
اس کے باوجود حکومت نے مقامی حکومت پنجاب کے بل 2025 کی منظوری دے دی۔ اپوزیشن نے بل کی منظوری کے دوران شور مچایا، مگر اسپیکر نے بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا۔
خلاصہ
یہ اجلاس پنجاب سیاسی تاریخ کا ایک پیچیدہ لمحہ تھا، جہاں ایک طرف ٹی ایل پی کے معاملے پر ارکان کی ہنگامہ آرائی تھی تو دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے حکومتی فیصلوں پر احتجاج۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ پنجاب کی سیاست میں عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان سمجھوتے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی تفصیلات کو مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے اور پڑھنے والوں کو واقعے کی سیاسی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔
