پاک افغان مذاکرات اور امن کی گارنٹی (آخری قسط)
حالیہ دنوں میں پاک افغان امن مذاکرات اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر افغان طالبان صدق دل سے دہشت گردوں سے کنارہ کشی کا عہد کریں، تو یہ خطہ امن اور استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں مختلف خبریں سامنے آ رہی ہیں، لیکن زیادہ تر امید افزا نہیں ہیں۔
پاکستان کا موقف
پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرنے اور ان کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ بصورت دیگر، افغانستان سے آنے والے کسی بھی خطرے کے پیش نظر، پاکستان حقائق کے مطابق کارروائی کا حق رکھتا ہے، جو کہ عالمی قانون کے تحت درست ہے۔ تاہم، افغانی وفد کے متعلق یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ انہوں نے مہلت مانگی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ شاید ان کی نیت پختہ نہیں۔
دینی نقطہ نظر
حال ہی میں ایک عالم دین سے گفتگو ہوئی، جنہوں نے کہا کہ اگر طالبان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا تو وہ خودکشی کے حملوں جیسے حرام اعمال کی ترغیب نہ دیتے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر انہیں مسلمانوں کے حقوق کی فکر ہوتی تو وہ اسرائیل یا بھارت کے خلاف جہاد کا اقدام کرتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسی کسی کارروائی کے متحمل نہیں ہوئے۔
بھارت کا کردار
ایک سابق سروس چیف نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس نے اس بات کا ذکر کیا کہ مئی کی جنگ کے بعد پاکستان کا پروفائل عالمی سطح پر بہتر ہوا ہے، جس سے دشمنوں کا اضطراب بڑھ گیا ہے۔ بھارت کی عسکری قیادت جانتی ہے کہ وہ براہ راست حملہ نہیں کر سکتے، اسی لیے وہ بالواسطہ طریقے سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کروارہی ہے۔
عمومی عوامی حمایت کی ضرورت
اس کے علاوہ، عوامی حمایت اور تعاون کے بغیر کسی بھی حکومتی پالیسی کو کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ باقی ممالک کی مدد سے زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں اپنی قوت اور تیاری کو بڑھانا ہوگا۔
مخالف قوتوں کی تصویر
یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ دہشت گردی چاہے افغانوں کی طرف سے ہو یا کسی اور طرف، اس سے امن کی ضمانت دوسرے ممالک نہیں دے سکتے۔ امن کی گارنٹی ہم اپنی طاقت اور تیاری میں دیکھتے ہیں۔ عسکری طاقت اور تیاری کے ساتھ عوامی حمایت ایک اہم حیثیت رکھتی ہے، جس کی جانب حکام کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
نتیجہ
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس خطے میں مستقل امن و استحکام کے حصول کے لیے ہمیں اپنی داخلی قوت اور تیاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف اس طرح ہم ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
