کراچی: عرفان بلوچ کیس میں دو پولیس اہلکاروں کی حوالگی
کراچی میں مقامی عدالت نے عرفان بلوچ کی موت کے معاملے میں دو پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ عدالت نے انہیں مزید تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس کے زیرِ حراست نوجوان کی گزشتہ روز ہونے والی موت کے باعث سامنے آیا ہے۔
عدالتی کارروائی
تحقیقاتی افسر کے مطابق، عدالت نے اے ایس آئی عابد شاہ اور اے ایس آئی آصف علی کی دو روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دی ہے۔ یہ دونوں اہلکار عرفان بلوچ اور دیگر کو لِلی برج سے ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر گرفتار کر کے لے گئے تھے۔
عرفان بلوچ کی موت
تحقیقات کے مطابق، عرفان بلوچ کی حالت اچانک خراب ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ پولیس کے اہلکاروں نے ناپسندیدہ طور پر انہیں ہسپتال منتقل کیا بغیر اپنے سپرiors کو اطلاع دیئے۔ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کیس کی تفصیلات مشکوک ہیں، جس سے اس واقعہ کے حالات پر شکوک و شبہات لاحق ہیں۔
دیگر گرفتاریاں
تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں مزید چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو ابھی تک مفرور ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
صوبائی وزیر کا موقف
سندھ کے وزیر داخلہ ذیاء الحسن لنجار نے اس واقعہ کی سنگینی کا اعتراف کیا ہے اور ایک محکمانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور کلیدی شواہد کے لیے جدید فارنزک تکنیکیں استعمال کی جائیں گی۔
چند اہم نکات
- عرفان بلوچ، جو بہاولپور کا رہائشی تھا، تفریح کے لیے کراچی آیا تھا۔
- وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ عرفان بلوچ نے کچھ ویڈیوز ریکارڈ کی تھیں، جو ممکنہ طور پر ایک غلط فہمی کا باعث بنی ہیں۔
- وزیر نے تمام متعلقہ اداروں کو واقعے کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عرفان بلوچ کے قتل کی تحقیقات میں مکمل شفافیت کا وعدہ کیا گیا ہے اور کوئی بھی حکومتی اہلکار جو اس معاملے میں ملوث پایا جائے گا، سخت سزا کا سامنا کرے گا۔ یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حقائق کا پتا لگانے کے لیے مستقل کوششیں کی جا رہی ہیں، اور آئندہ کسی بھی بے گناہ شہری کے ساتھ ایسا حادثہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔
