سعودی ولی عہد کی 18 نومبر کو ٹرمپ سے ملاقات: وائٹ ہاؤس کا اعلان
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک رسمی کام کے دورے پر آئیں گے۔ یہ ملاقات اس وقت ہو رہی ہے جب ٹرمپ سعودی عرب پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ابراہم معاہدے میں شامل ہو جائے۔
ابراہم معاہدے کا پس منظر
سال 2020 میں، ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کیے۔ سعودیوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے اقدامات نہ ہونے کی بنا پر اس میں شامل ہونے میں ہچکچاہٹ دکھائی ہے۔
سعودی عرب کی شمولیت کی توقعات
ٹرمپ نے CBS کے ”60 منٹس“ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب آخر کار معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ انہوں نے اس مہینے کے آغاز میں بھی امید ظاہر کی تھی کہ ابراہم معاہدے کی توسیع جلد متوقع ہے۔
دفاعی معاہدے پر بات چیت
یہ ملاقات ایک امریکی-سعودی دفاعی معاہدے پر بھی بات چیت کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، دو ہفتے پہلے یہ امید کی گئی تھی کہ دونوں ممالک سلمان کی اس دورے کے دوران اس طرح کے معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے دفاعی ضمانتیں
سعودی عرب نے امریکا سے ملک کی حفاظت کے لیے رسمی ضمانتیں طلب کی ہیں اور انہیں مزید جدید ہتھیاروں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب امریکہ کے ہتھیاروں کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے تعلقات قائم ہیں جو کہ ایک ایسے معاہدے پر منحصر ہیں جس میں سعودی عرب تیل فراہم کرتا ہے اور واشنگٹن سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔
ماضی کے معاہدے اور سرمایہ کاری کی پیشکشیں
ٹرمپ کی مئی میں ریاض کے دورے کے دوران سعودی عرب کے ساتھ تقریباً 142 بلین ڈالر کی ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ ہوا تھا۔ ٹرمپ نے سلمان کے ساتھ 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ رقم 1 ٹریلین ہونی چاہیے۔
خلاصہ
سعودی ولی عہد کا یہ دورہ جدید بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر موجودہ جغرافیائی چیلنجز اور سعودی عرب کی شمولیت کے امکانات، دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
