والد کی موت طبعی نہیں، انھیں قتل کیا گیا؛ ایرانی صدر رفسنجانی کی بیٹی کا حکومت پر الزام
ایران کے سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی رفسنجانی کے ایک حیران کن بیان نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے، جس پر ایرانی عدالت نے بھی نوٹس لیا ہے۔
بے بنیاد الزامات یا حقیقت؟
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی عدالت نے فائزہ ہاشمی رفسنجانی کو طلب کر لیا۔ یہ درخواست ایک عدالتی اہلکار کی جانب سے کی گئی ہے، جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے ہیں۔
قتل کا ذمہ دار کون؟
فائزہ ہاشمی رفسنجانی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ان کے والد کے قتل کا ذمہ دار ممکنہ طور پر حکومت ہے، نہ کہ خارجی دشمن جیسے اسرائیل یا روس۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض ملکی اہم شخصیات کے مفادات کی خاطر ان کے والد کو راستے سے ہٹایا گیا۔
پہلی بار نہیں
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کے اہل خانہ نے طبعی موت کے بجائے قتل کا الزام لگایا ہو۔ ان کے بیٹے محسن رفسنجانی اور ایک اور بہن فاطمہ نے بھی اپنے والد کی موت کو پُراسرار قرار دیتے ہوئے طبعی وجہ کو مسترد کیا ہے۔
پاسداران انقلاب کا کردار
سابق پاسداران انقلاب کے کمانڈر یحییٰ رحیم صفوی کے بیانات نے اس معاملے پر مزید تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
علی اکبر رفسنجانی کا سیاسی سفر
سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی 17 اگست 1989 سے 2 اگست 1997 تک ملک کے صدر رہے اور جنوری 2017 میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں اور اختلافات نے انہیں اہم اور متنازعہ شخصیت بنا دیا۔
2005 کے صدارتی انتخابات کے بعد علی اکبر رفسنجانی حکومت کے ناقدین میں شامل ہوگئے تھے اور 2009 کے انتخابات کے دوران ان کے اختلافات ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ساتھ بھی بڑھ گئے تھے۔
کیا فائزہ ہاشمی رفسنجانی کے الزامات کی حقیقت ہے یا یہ محض افواہیں ہیں؟ یہ سوال آج ایرانی عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔
