بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی۔۔۔۔ !
آج کی دنیا میں جب ہم ہر طرف سے مختلف نظریات اور عقائد کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا کی طرف سے دیا گیا پیغام ہمیشہ ہمارے لیے رہنما ہے۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل قصے کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے ایمان کے تعلقات کو کس طرح مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بنی اسرائیل کا قصہ اور اس کی تعبیر
قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کا گزر ہوا ایک ایسی بستی سے جہاں کے رہنے والے بتوں کی عبادت کر رہے تھے۔ اور بنی اسرائیل انھیں مشرکین کو دیکھ کر حضرت موسیٰؑ سے تقاضا کرتے ہیں کہ آپؑ ہمیں بھی ایسا ہی خدا بنا دیجیے اور حضرت موسیٰؑ جواب دیتے ہیں کہ تم تو بڑے ہی نادان ہو۔ یہ وہی قوم ہے جو تمام صعوبتوں سے گزر کر یہاں پہنچتی ہے۔
فرعون نے اسی قوم کی زندگی مشکل میں ڈالی، یہی قوم ظلم و جبر کے نہ ختم ہونے والے دور سے گزرتی رہی۔ فرعون نے اسی قوم کے نوزائدہ بچوں تک کو قتل کیا۔ اور پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو کامیابی عطا کی۔ حضرت موسیٰؑ کو اﷲ عزوجل نے سمندر کے دو حصے ہو جانے کے معجزے سے نوازا۔
پیغام کی اہمیت
الفاظ مختلف ہوں گے، وقت مختلف لیکن پیغام وہی۔ اﷲ کی ذات کی عظمت یعنی وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اب سمجھنے والے پر ہے کہ قبول کرے یا نہ کرے۔ حضرت موسیٰؑ کا یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے ہم بھی زمانے کے تقاضوں میں مبتلا ہوگئے ہیں، اور کیسے اپنا ایمان بھول بیٹھے ہیں۔
نئے چیلنجز
کیا ہم بھی تو ایسا ہی نہیں کر رہے؟ دوسری سوچوں، نمود اور مظاہروں سے مرعوب ہو جانا، ایسی سوچوں سے متاثر ہو جانا جو اﷲ کے پیغام کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارا تعلق کہاں سے ہے، تعلق اس دین سے جو ہماری نجات ہے۔
عصر حاضر کے چیلنجز
آج کی تحریر میں اس آیت کا انتخاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اﷲ کا پیغام آج بھی بنی اسرائیل کی مثال کے ساتھ پورا اتر رہا ہے۔ قرآن میں جو قصے بیان ہوئے ہیں وہ صرف ماضی کی بات نہیں ہیں بلکہ ہر دور کے لیے اہم ہیں۔
خواہشات اور ایمان کا توازن
جب ہم گاڑی چلاتے ہیں تو بریک کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک لازمی جزو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ہم اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح ہمیں اپنی خواہشات کے تیز رفتار سفر میں قناعت کی بریک کو تلاش کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے ایمان کی منزل کو پانے میں کامیاب ہوں۔
نئی نسل کی ذمہ داری
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اسلامی تعلیمات کا خزانہ دینا ہے۔ یہ سوچنا ہے کہ ہم کون سی مثال قائم کر رہے ہیں؟ کیا ہماری نوجوان نسل اتنی کمزور ہے کہ وہ مغربی خیالات کے زیر اثر آ جائے؟
نتیجہ
اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ ہمیں وہ عقل و شعور عطا فرمائے جو ہماری دنیا و دین دونوں میں کامیابی کا باعث بن جائے۔ ہمیں ہر لمحے اﷲ کی رضا کو اپنے مقاصد پر فوقیت دینا ہوگی۔ یہ ایک مستقل ذمہ داری ہے۔ آمین
