اسلام آباد اور کابل کے درمیان کوئی تعلق نہیں: پاکستان کے وزیر کا انتباہ کہ دشمنی کبھی بھی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے
اس مضمون میں ہم پاکستان کے وزیر برائے دفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان پر روشنی ڈالیں گے، جس میں انہوں نے کابل کی حکومت کے ساتھ تعلقات کی تلخی اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذکر کیا۔ خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر افغانستان مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو اس کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں پیش آنا ہوگا، ورنہ دشمنی کی صورت میں ہر وقت خطرہ موجود ہے۔
خواجہ آصف کا بیان
خواجہ آصف نے کہا کہ “اگر افغانستان بات چیت کرنا چاہتا ہے جبکہ دھمکیوں کے ساتھ پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے، تو انہیں پہلے اپنی دھمکیوں پر عمل کرنا چاہیے اور پھر ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔” یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی دھمکیوں کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں۔
کشیدگی کی وجوہات
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سرحدی جھڑپیں، دہشت گردی کے واقعات اور دونوں ممالک کے درمیان وزارتی سطح پر عدم رابطے شامل ہیں۔ ان تمام عوامل نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
دفاعی حکمت عملی
پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں سرحدی تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ خواجہ آصف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کا مؤثر دفاع کرے گا اور کسی بھی غیرملکی دھمکی کا فوری جواب دیا جائے گا۔
آگے کا راستہ
دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلا رہنا چاہیے، مگر اس کے لیے ایک مثبت ماحول ضروری ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں کشیدگی کا لمحہ لمحہ خطرہ موجود ہے، لیکن امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ممالک اپنی حکمت عملیوں میں توازن پیدا کر کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کریں گے۔
ایسے میں پاکستان کے حکام کو اپنی مستحکم دفاعی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ علاقے میں امن قائم رہ سکے۔
