اسد زبیر شہید کو سلام!
کے پی پولیس کے ایک اور بہادر افسر ایس پی اسد زبیر نے اپنے بہادر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وطنِ عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اسد زبیر کو پوری قوم کا سلام ہو، اُس سے یہی امید تھی، وہ ایک جرات مند باپ کا بہادر بیٹا تھا، جو شجاعت کی لوریاں اور شہادت کی کہانیاں سن کر جوان ہوا تھا، شہادت ہی اس کی آرزو تھی اور شہادت ہی منزل۔ اس کی آرزو قبول ہوئی اور خالقِ کائنات نے اسے اپنے پسندیدہ ترین افراد یعنی قافلۂ شہداء میں شامل کرلیا۔
دہشت گردی کا عفریت
دہشت گردی کی آگ نے پھر خیبر پختونخواہ کے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کوئی دن نہیں گزرتا جب ہماری سیکیوریٹی فورسز کے گبھرو جوان اور خوبرو افسران وطنِ عزیز پر قربان نہ ہوتے ہوں۔ کہنا اور لکھنا آسان ہے مگر جب جوان بیوہ چھوٹی سی بچی کو اٹھاتے ہوئے اپنے شہید شوہر کی وردی وصول کرتی ہے یا جب بوڑھی ماں اپنے قابلِ فخر بیٹے کی میّت دیکھتی ہے تو وہ کس قیامت سے گزرتی ہیں، ان کا دُکھ اور کرب کوئی نہیں جان سکتا۔
یادگار لمحات
مجھے دہشت گردی کی موجودہ لہر دیکھ کر وہ دور یاد آتا ہے جب میں بھی خیبرپختونخواہ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ ڈیرہ بازار میں پولیس کی پک اپ دہشت گردی کا نشانہ بنی جس سے پولیس کے تین جوان شہید ہوگئے، اس کے بعد ٹانک میں کئی پولیس افسران ملک پر قربان ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ جس روز میں کوہاٹ پہنچا، اسی رات کو کنٹونمنٹ کی مسجد میں خودکش دھماکا ہوگیا۔ ورثاء آہ وزاری کررہے تھے اور ہر باشعور شخص سوال کر رہا تھا کہ کیا ایسی درندگی کا مظاہرہ اسلام سے محبت کرنے والے لوگ کرسکتے ہیں؟
شہید کی داستان
شہید ایس پی اسد زبیر غیر معمولی جرات مند محافظوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے دادا شہاب الدّین آفریدی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رہ چکے تھے۔ اسد زبیر اسی جرات و شجاعت کے جذبے کے ساتھ بیس سال کی عمر میں پولیس سروس میں شامل ہوا۔
ایک بہادر افسر کا سفر
24 اکتوبر 2025 کو جب دہشت گردوں نے سیکیوریٹی چیک پوسٹ غلمینہ کو نشانہ بنایا، تو اسد زبیر فوری طور پر اپنے ساتھ دو گن مین لے کر موقع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر، اُس نے اپنے فرض کو نبھایا اور بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔
امن کا علمبردار
یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کے لیے عوامی سطح پر سپورٹ یا ہمدردی میں بہت کمی آئی ہے۔ عوام اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ دہشت گرد مذہبی لوگ نہیں بلکہ کرائے کے قاتل ہیں جو اپنے وطن میں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔
اختتامیہ
فوج اور پولیس کے افسران اور جوان اپنے لہو سے امن اور سلامتی کے جو چراغ روشن کر رہے ہیں، ان کی روشنی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انشاء اللہ بہت جلد سحر طلوع ہوگی، دیرپا امن، سکون اور خوشحالی کی سحر۔ خیبر پختونخواہ پولیس کے شہیدوں کو سلام۔ اور شہریوں کی حفاظت کرنے والے جری اور بہادر جوانوں اور افسروں کے لیے دعائیں۔ اللہ تعالیٰ عوام کے محافظوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔
یہ مضمون خیبر پختونخواہ کے بہادر پولیس افسر اسد زبیر کی قربانی کو یاد کرتا ہے اور شہیدوں کی یادگار داستانوں کا ذکر کرتا ہے۔ ہم ان کی قربانی کو کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے۔
